تفسير ابن كثير



سورۃ التوبة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
كَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ[69]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] ان لوگوں کی طرح جو تم سے پہلے تھے، وہ قوت میں تم سے زیادہ سخت اور اموال اور اولاد میں بہت زیادہ تھے۔ تو انھوں نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھایا، پھر تم نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھایا، جس طرح ان لوگوں نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھایا جو تم سے پہلے تھے اور تم نے فضول باتیں کیں، جس طرح انھوں نے فضول باتیں کیں۔ یہ لوگ! ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے اور یہی خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ [69]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] مثل ان لوگوں کے جو تم سے پہلے تھے، تم میں سے وه زیاده قوت والے تھے اور زیاده مال واوﻻد والے تھے پس وه اپنا دینی حصہ برت گئے پھر تم نے بھی اپنا حصہ برت لیا جیسے تم سے پہلے کے لوگ اپنے حصے سے فائده مند ہوئے تھے اور تم نے بھی اسی طرح مذاقانہ بحﺚ کی جیسے کہ انہوں نے کی تھی۔ ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں غارت ہوگئے۔ یہی لوگ نقصان پانے والے ہیں [69]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (تم منافق لوگ) ان لوگوں کی طرح ہو، جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں۔ وہ تم سے بہت زیادہ طاقتور اور مال و اولاد میں کہیں زیادہ تھے تو وہ اپنے حصے سے بہرہ یاب ہوچکے۔ سو جس طرح تم سے پہلے لوگ اپنے حصے سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ اسی طرح تم نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھا لیا۔ اور جس طرح وہ باطل میں ڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے۔ اور یہی نقصان اٹھانے والے ہیں [69]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 69،

ان لوگوں کو بھی اگلے لوگوں کی طرح عذاب پہنچے ٭٭

ان لوگوں کو بھی اگلے لوگوں کی طرح عذاب پہنچے، «خَلَاقِ» سے مراد یہاں دین ہے، جیسے اگلے لوگ جھوٹ اور باطل میں کودتے پھاندتے رہے، ایسے ہی ان لوگوں نے بھی کیا۔

ان کے یہ فاسد اعمال اکارت گئے نہ دنیا میں سود مند ہوئے نہ آخرت میں ثواب دلانے والے ہوئے یہی صریح نقصان ہے کہ عمل کیا اور ثواب نہ ملا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جیسے آج کی رات کل کی رات سے مشابہ ہوتی ہے اسی طرح اس امت میں بھی یہودیوں کی مشابہت آ گئی۔ میرا تو خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم اپنے سے پہلے کے لوگوں کے طریقوں کی تابعداری کرو گے بالکل بالشت بہ بالشت اور ذراع بہ ذراع اور ہاتھ بہ ہاتھ یہاں تک کہ وہ اگر کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں تو یقیناً تم بھی گھسو گے۔‏‏‏‏ لوگوں نے پوچھا: اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون لوگ ہیں؟ کیا اہل کتاب؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور کون؟ [صحیح بخاری:3456] ‏‏‏‏

اس حدیث کو بیان فرما کر ابوہریرہ نے فرمایا اگر چاہو تو قرآن کے ان لفظوں کو پڑھ لو «كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ» [9-التوبہ:69] ‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «خَلَاقِ» سے مراد دین ہے۔ اور تم نے بھی اسی طرح کا خوض کیا جس طرح کا انہوں نے کیا۔‏‏‏‏ لوگوں نے پوچھا: کیا فارسیوں اور رومیوں کی طرح؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور لوگ ہیں ہی ہیں کون؟ [سنن ابن ماجہ:3994،قال الشيخ الألباني:حسن صحیح] ‏‏‏‏ اس حدیث کے شواہد صحیح احادیث میں بھی ہیں۔
3518



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.